مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔ گفتگو میں امیر عبداللہیان نے کہا کہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری تنازعہ کی جڑیں شمالی بحر اوقیانوس کے معاہدے کی تنظیم (نیٹو) کی غلط پالیسیوں یعنی مشرق کی جانب اس کی توسیع سے ملتی ہیں۔
انہوں نے یوکرین جنگ میں استعمال کے لیے ایران سے روس کو ہتھیار بھیجے جانے کو ایک بے بنیاد الزام قرار دیا اور کہا کہ اس طرح کے الزامات کا مقصد یوکرین کے لیے مغربی ہتھیاروں کی امداد کو قانونی حیثیت دینا ہے۔ امیر عبداللہیان نے کہا کہ ایران کے خلاف دعوے کرنے والوں اور اس پر تنقید کرنے والوں نے ہی یوکرین جنگ شروع کی اور اب اسے جاری رکھنے پر مصر ہیں۔ انہوں نے جنگ کے فریقین کو ہتھیار بھیجنے کے سلسلے میں ایک بار پھر اسلامی جمہوریہ ایران کی مخالفت پر زور دیا۔ ان کے بقول جنگ کے نتیجے میں دونوں فریقوں کے لیے صرف انسانی نقصانات اور مالی اخراجات میں اضافہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ تہران جنگ کو روکنے اور یورپ میں دیرپا امن کے فروغ کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔ ایرانی وزیر خارجہ نے ملک کے اندرونی حالات کا ذکر کرتے ہوئے ایران میں فسادات اور دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کے حوالے سے امریکہ اور چند مغربی ملکوں کے اقدامات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ممالک غلط معلومات کو بنیاد بنا کر طے شدہ اہداف کے تحت بین الاقوامی پلیٹ فارمز کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔
امیر عبداللہیان نے اس بات پر بھی زور دیا کہ تہران سفارت کاری اور مذاکرات کو بہترین آپشن سمجھتا ہے اور مزید کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران دوسرے آپشنز کے سامنے کبھی ہاتھ باندھے بیٹھا نہیں رہے گا۔ اقوام متحدہ کے سربراہ نے اپنی گفتگو کے دوران علاقائی مسائل میں ایران کے تعمیری کردار کو سراہا اور امید ظاہر کی کہ تہران کی کوششیں یوکرین میں جنگ کے خاتمے اور وہاں جنگ بندی کے قیام کا باعث بنیں گی۔
انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے ایران کے اندر ہونے والے واقعات کی چھان بین کے لیے قومی کمیٹی کی تشکیل کے اقدام کو بھی خوش آئند قدم قرار دیا۔
گوتریس نے کہا کہ مذاکرات اور سفارت کاری علاقائی اور بین الاقوامی مسائل کے حل کے لیے موزوں طریقے ہیں اور یمن کے بحران کے سیاسی حل کے لیے ایران کی جانب سے مسلسل کوششوں کی اہمیت پر زور دیا۔
ایرانی وزیر خارجہ اور اقوام متحدہ کے سربراہ نے 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ہونے والی بات چیت میں ہونے والی تازہ ترین پیش رفت کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا، جسے باضابطہ طور پر جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (JCPOA) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دونوں رہنماوں نے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے ساتھ ایران کے تعاون کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا۔
آپ کا تبصرہ